Saturday, October 13, 2012

Real face of Malalah Yousafzai



ملالہ اور والد کی اعلی امریکی فوجی حکام سے ملاقاتوں کی ویڈیو منظر عام پر آگئی

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی 2010 کے درمیاں میں بنائی گئی ایک ڈاکیو منٹری میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملا لہ یوسف زئی اور اس کے والد نے پاکستان میں امریکی سفیر، پ
اکستان کے لئے امریکی نمائندہ خصوصی رچرڈ ہالبروک اور امریکی وزیر خارجہ اور اعلی امریکی فوجی افسران سے خفیہ ملاقاتیں کی تھیں جن میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ سوات میں فوجی آپریشن کو یقینی بنائیں تاکہ وہاں سے طالبان کا صفایا کیا جا سکے۔
اور اس کے جواب میں امریکی فوجی حکام حیرت زدہ ہو کر س بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ کیا واقعہ ملالہ اور اس کے والد سوات سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور اس کے باوجود امریکی حامی ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی تیار کردہ اس ڈاکیو منٹری کا دورانیہ 32منٹ کا ہے اور اس میں ایک چھوٹا ساکلپ دکھایا گیا ہے جس میں ملالہ اور اس کے والد امریکی فوجی اعلی عہدے داروں سے ملاقات میں پاکستان میں فوجی آپریشن کا تقاضا کررہے ہین جب کہ جواب مین انہیں بتایا جا رہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کام کررہے ہین اور صدر اوباما نے اس سلسلے میں پاکستان پر اربوں ڈالر خرچ کئے ہیں۔


یہ ڈاکیو مینٹری نیو یارک ٹائمز کے ایک یہودی فلم میکر ایڈم ایلائیک نے تیار کی تھی اور وہ سوات آپریشن کے دوران ملالہ کے خاندان کے ساتھ ہی رہا تھا۔ اس ڈاکیو مینٹری کا نام رکھا گیا تھا، ایک اسکول گرل کی مہم جوئی۔ بعد مین اس فلم کے حصے الجزیرہ نے بھی جولائی 2010 کو نشر کئے اور نیو یارک ٹائمز نے بھی اس ویڈیو کو اسی دوران اپنی ویب سائٹ پر نشر کیا۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ سوات سے دہشت گردوں کا قبضہ ختم کرنے کے لئے فوجی آپریشن میں اہم کردار ملالہ نے ادا کیا تھا اور اس سلسلے مین امریکیوں سے مدد لی تھی۔


مذکورہ ویڈیو اب بھی نیو یارک ٹائمز کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور اسے یہاں دیکھا جا سکتا ہے:



SHARE WITH YOUR FRIENDS


Friday, October 12, 2012

ابن بطوطہ - Ibn-E-Batuta



ابن بطوطہ، چودہویں صدی عیسوی کا ایک عظیم سیاح، جس نے اس زمانے میں معلوم دنیا کے بیشتر علاقوں کا سفر کر کے سیاحت کی تاریخ میں ایک کارہائے نمایاں انجام دیا۔

زندگی کے 28 سال سفر میں گزارنے والے ابن بطوطہ کا تعلق موجودہ مراکش کے شہر طنجہ سے تھا اور وہ 21 سال کی عمر میں پہلا حج کرنے کے بعد دنیا بھر کی سیاحت پر نکلا۔ اس نے نہ صرف بلاد اسلامیہ یعنی موجودہ مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، وسط ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور شمالی افریقہ کے سفر کیے بلکہ غیر مسلم دنیا جیسا کہ مشرقی یورپ، جنوبی یورپ، مغربی افریقہ اور چین تک کی بھی سیاحت کی۔ اس نے کل 75 ہزار میل یعنی ایک لاکھ 21 ہزار کلومیٹر کا سفر کیا جو اپنے وقت کا ایک ریکارڈ تھا۔ جدید بحری جہازوں کے آنے تک کوئی سیاح اتنے زیادہ سفر نہیں کر پایا۔

زیر نظر نقشہ ابن بطوطہ کے تمام اسفار کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ نقشہ مالیسے روتھوین اور عظیم نانجی کی 'تاریخی اطلس اسلام' (Historical Atlas of Islam) سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب ہارورڈ یونیورسٹی پریس نے 2004ء میں شایع کی اور ایمیزن پر دستیاب ہے



Sunday, October 7, 2012

Famous French singer Melanie Georgiades embraces Islam and wearing Hijab (URDU)


اسلامی حجاب کے سخت ترین دشمن ملک فرانس کی مشہور ترین گلوکارہ میلنئی جارجیا دیس المعروف دیام سن نے اچانک اسلام قبول کر کے دنیا کو حیران کردیا

فرانس کی معروف گلوکارہ میلنئی جارجیادیس المعروف دیام سن 2009ء کے بعد سے پردۂ سکرین سے غائب رہی 
ہیں۔ ان کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں۔ وہ اس دوران گاہے گاہے حجاب اوڑھ کر منظرعام پربھی آتی رہی ہیں لیکن ان کے اتا پتا کے بارے میں کم ہی اطلاعات سامنے آتی رہی تھیں کہ وہ کہاں روپوش ہوگئی تھیں۔حال ہی میں وہ اپنی نئی شناخت کے ساتھ فرانس کے ٹیلی ویژن چینل ٹی ایف ون کے ذریعے منظرعام پر آئی ہیں۔اس ٹی وی چینل کے ساتھ ایک خصوصی انٹَرویو میں انھوں نے اپنے ماضی کے بارے میں تفصیل بیان کی ہے۔

وہ ماضی میں اپنا غم غلط کرنے کے لیے منشیات اورنشہ آورادویہ استعمال کرتی رہی ہیں۔اس دوران ان کی اپنی ایک مسلمان دوست سے ملاقات ہوئی اور پھر انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ دیام نے بتایا کہ انھوں نے ایک سال قبل شادی کرلی تھی۔ اب وہ ایک بچے کی ماں ہیں اور وہ اپنے منشیات زدہ ماضی سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے قرآن مجید کو پڑھ کر اور سمجھ کراسلام قبول کیا تھا۔ جب ان سے فرانس جیسے ملک میں حجاب اوڑھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ''میرا خیال ہے۔ میں ایک روادار معاشرے میں رہتی ہوں۔میں تنقید کا برا نہیں مانتی لیکن روایتی قسم کی تضحیک اور برجستہ فیصلوں کا ضرور بُرا مانتی ہوں''۔


اس کے بعد ٹی وی میزبان نے ان سے یہ سوال کیا کہ وہ حجاب کیوں اوڑھ رہی ہیں جبکہ بہت سی مسلم خواتین ایسا نہیں کرتی ہیں اور بعض اس کو مذہبی فریضہ بھی نہیں سمجھتی ہیں تو ان کا جواب تھا:''میں پردے کو ایک شرعی حکم سمجھتی ہوں۔اس سے میرا دل باغ باغ ہوجاتا ہے اور میرے لیے یہی کافی ہے''۔دیام کا کہنا تھا کہ وہ مسلمان ہونے کے بعد سے خوش ہیں۔انھوں نے اپنی مسجد سے نکلنے کی ایک تصویر شائع کرنے پر میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا۔تصویر میں وہ حجاب اوڑھےاپنے موبائل کی طرف دیکھ رہی ہیں اور ان کے پیچھے ایک مرد آرہا ہے۔اس مرد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ان کا خاوند ہے۔

دیام نے بتایا کہ ''میں اسلام قبول کرنے سے قبل نشہ آور ادویہ استعمال کیا کرتی تھی اور اپنی نفسیاتی صحت کی بحالی کے لیے ذہنی امراض کے ایک مرکز میں بھی داخل رہی تھی لیکن اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوا تھا۔اس دوران میری مسلم دوستوں میں سے ایک سے ملاقات ہوئی اور اس نے بتایا کہ میں نماز کے لیےجارہی ہوں تو میں نے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی''۔ اس لمحہ اور خوشگوار تجربہ کو یاد کرتے ہوئے دیام نے بتایا کہ ''یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے اپنا ماتھا فرش پر رکھا تھا۔میں نے اس وقت جو کچھ محسوس کیا،اس سے قبل مجھے کبھی ایسا تجربہ نہیں ہوا تھا۔اب میرا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کے آگے نہیں جھکنا چاہیے''۔

دیام نے مزید بتایا کہ اس کے بعد وہ موریشس چلی گئی تھیں جہاں انھوں نے قرآن مجید کا مطالعہ کیا اور اسلام کو بہتر طور پر سمجھا۔اس دوران ہی انھیں پتا چلاکہ اسلام سب سے زیادہ روادار دین ہے۔جب ان سے میزبان نے ان کے اسلام سے متعلق نقطہ نظر اور اسلام کے نام پر ہونے والی قتل وغارت گری کے بارے میں پوچھا توانھوں نے اس کا مدلل جواب دیتے ہوئے کہا:''میرے خیال میں ہمیں جاہل اور باعلم میں فرق کرنا چاہیے۔جاہل اگر کسی کے بارے میں کچھ جانتا نہیں تو اس کو ہرگز بھی اس سے متعلق کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔اسلام بے گناہ لوگوں کو ہرگز بھی اس طرح قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتاجیسا کہ ہم آج کل مشاہدہ کررہے ہیں۔اس کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا''۔