Sunday, September 9, 2012

بیوی کے لئے خاص ہدایات



اے میری مسلمان بہن !
ہر شوہر کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا گھر خوشیوں کا مر کز ہو اور اس کے خاندان کے افراد بھی ان خوشیوں میں شریک ہوں ، لیکن جو بات اس سعادت وفرحت کو برباد کرکے رکھ دیتی ہے اور ان خوشیوں کو احزان میں تبدیل کر دیتی ہے، وہ بیوی کا اپنے شوہر کے ساتھ ناروا سلوک ہے، جو اپنے شوہر کے ہم پلہ اور ہم رتبہ بننا چاہتی ہے، ہر وقت اپنی ہی رائے کو اہمیت دیتی ہے اور اپنی ہی خواہش کو مدِ نظر رکھتی ہے، ہمیشہ یہ خواہش ہو تی ہے کہ اس کا خاوند اس کی ہر خواہش پر لبیک کہے، ورنہ وہ ناراض اور غمگین ہو جاتی ہے، وہ عام طور پر یہ چاہتی ہے کہ اسکا شوہر اس بات کو نہ بھولے کہ اسے چند ایسی چیزوں کی عادت ہے جو بے تو جہی یا فراموش کر دینے کے قابل نہیں ہیں۔
ایسی بیوی جو اس طرح کی سوچ رکھتی ہو ، اپنا گھر تباہ کر دیتی ہے، آباد گھر کو ویرانے میں تبدیل کر دیتی ہے، محبت کو عداوت میں اور سکون ومودت کو بغض و نفرت اور شوروہنگامہ میں بدل دیتی ہے۔ پھر اگر وہ صاحبِ اولادہو تو وہ اولاد بھی آوارہ ہو جاتی ہے۔
نیک بیوی وہ ہے جو اس موقع اور محل کو بھانپ لیتی ہے جہاں سے اختلاف کا معاملہ اس کے گھر میں پید ا ہوا ہے، پس وہ فوراً اختلاف اس بات کی طرف متوجہ ہو تی ہے جس کی وجہ سے اس کا خاوند ناراض ہوا ہو تا ہے ، پھر اس کی تلافی کرتی ہے ۔ شاید اس شادی خانہ آبادی کو بربادی میں بدلنے میں عورت کے شعور کو بڑا دخل ہوتا ہے، وہ خود کو اپنے شوہر کے ہم پلہ خیال کرتی ہے۔

شادی کا اصل مقصد اسلام کی نظرمیں
میری مسلمان بہن !
یہ شادی ایک عظیم حکمت اور اعلیٰ مقصد پر مبنی ہے اور یہ ان عبادات میں سے ایک عبادت ہے جن کے ذریعہ مسلمان مر د اور عورت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔
بناء بریں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شادی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جو اس نے مرد اور عورت دونوں کو عطافرمائی ہے ۔اسلام کی نظر میں شادی کا اصل مقصد جانبین میں مودّت والفت اور جذبہٴ ایثار پیدا کرنا ہے۔ لیجئے ! اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ذی شان کو توجہ سے سنیئے اور پڑھیے:
﴿ومن ایتہ ان خلق لکم من انفسکم ازوجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودة ورحمة ط ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون﴾(الروم :۲۱)
”اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری جنس کی بی بیاں بنائیں تاکہ تم کو ان کے پاس آرام ملے اور تم میاں بیوی میں محبت اور ہمدردی پیدا کردی اس میں ان لوگو ں کے لیے نشانیاں ہیں جو فکر سے کام لیتے ہیں۔“
نیز تاکہ دونوں کی محبت وعشرت میں دوام و استمرارر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زوجین میں سے ہر ایک کے ذمہ دوسرے کے کچھ حقوق مقرر کیے ہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ولھن مثل الذی علیھن با لمعروف وللرجال علیھن درجة﴾ (البقرة :۲۲۸)
”اور عورتوں کے لیے بھی حقوق ہیں جو کہ مثل ان ہی حقوق کے ہیں جو ان عورتوں پر ہیں قاعدہ (شرعی) کے مطابق۔“
پس اے میری مسلمان بہن!
اس سے معلوم ہوا کہ تمہارے خاوند پر بہت سے حقوق ہیں ، جن کی ادائیگی اس پر بہت ضروری ہے، بلکہ عدم ادائیگی کی صورت میں وہ عند اللہ عاصی اور گنہگار شمار ہوگا ۔ اسی طرح بیوی پر بھی اس کے خاوند کے کچھ حقوق ہیں اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بیوی اپنے رب کی جنت میں اسی صورت میں داخل ہو سکتی ہے کہ جب وہ ان حقوق کو اداکرے اور دونوں جہاں کی سعادتیں اور خوشیاں بھی اسی صورت میں حاصل کر سکتی ہے جب اپنے خاوند کے حقوق کی پاس داری کرے ۔
شوہر کا یہ حق کہ عورت اس کی فرماں بردار ہو، اس بات کو وہ بیوی کی طرف سے دیکھنا چاہتا ہے ، لہٰذا عورت کو چاہیے کہ اس کا شوہر اس کی زباں سے اچھی اورعمدہ گفتگو ہی سماعت کرے اور اس کو بیوی کی طرف سے اپنی خواہش اور ضرورت کی موافقت ہی نظر آئے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کسی بشرکے لائق نہیں کہ وہ کسی بشر کو سجدہ کرے ، اگر بشر کو سجدہ کرے ، اگر کسی بشر کے لائق ہوتا (بالفرض) کہ وہ کسی بشر کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم کر دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ، اس لیے کہ خاوند کے اس پر بہت حقوق ہیں ۔“مسند احمد : ۳/۱۵۸۔ سنن النسائی :۲۷۵)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی:
”میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے “اس لیے کہ شوہر کے حقوق اس کی بیوی پر بہت زیادہ ہیں اور عورت اس کی ادائیگی سے عاجزہے۔
اس حدیث میں دراصل شوہر کی اطاعت کے وجوب کو ازراہِ مبالغہ بیان کیا گیا ہے ورنہ غیر اللہ کے لیے سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اطاعتِ زوج کوان اسباب میں سے ایک سبب قرار دیا ہے جن پر عورت کا جنت میں داخل ہونا موقوف ہے۔
خاوند کی فرماں برداری ، اخلاق حسنہ میں سے ہے جو زوجہء صالحہ کی زندگی کی بنیاد ہے اور اسی پر اس کی دنیا و آخرت کی سعادت و فلاح کا دارومدار ہے ۔
جب ایک مسلمان بیوی اپنے شوہر کی فرماں بردار ہوگی ، اس کی مرضیات پر عمل پیرا ہو گی اور ایذ ارسانی سے اجتناب کرے گی تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس سے راضی ہوں گے۔
اے میری مسلمان بہن !
جس قدر تم اپنے شوہر کی اطاعت کروگی اسی قدر تم اپنی زوجیت والی زندگی میں کامیاب اور کامران قرار پاوٴگی اور جس قدر تمہارا خاوند تمہاری حق شناسی اور حق کی ادائیگی کو مشعور اور محسوس کرے گا اسی قدر تمہاری شان اور محبت اس کے دِ ل میں بڑھے گی ۔

خاوند کا مقام و مرتبہ
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موٴمن عورتوں کو یہ بات سکھائی ہے کہ جو راستہ جنت کی طرف جاتا ہے وہ خدااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بعد خاوند کے اطاعت سے حاصل ہو تا ہے۔ آیئے! درجِ ذیل حدیثِ مبارک میں غور کریں :
حضرت حصین بن محصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:”کہ ان کی پھوپھی ، نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام کی خدمتِ اقدس میں اپنی کسی ضرورت کے لیے حاضر ہوئیں ، جب وہ اپنی ضرورت سے فارغ ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا :” اذات زوج انت“؟یعنی کیا تو شوہر والی ہے؟ تو کسی کی بیوی ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تو اپنے خاوند کی کتنی خدمت کرتی ہے اور کس قدر حقوق ادا کرتی ہے؟ اس نے کہا کہ میں ان کے حق کی ادائیگی میں حتی المقدور کوتاہی نہیں کرتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ”پس تو دیکھ لے کہ تواس کے حقوق کہاں تک ادا کرتی ہے؟کیونکہ وہ تیری جنت بھی ہے اور جہنم بھی۔“ (مسند احمد :/۱:۳،سنن النسائی۷۶)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:” وہ تیری جنت بھی ہے اور جہنم بھی “ میں خوب غور کر لیجئے!
اگر اس کی اطاعت کروگی تو وہ تیرے لیے جنت ہے یعنی جنت میں پہنچانے کا سبب ہے، جیسے دیگر اسباب ہوتے ہیں جن کو لوگ اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت حاصل کرتے ہیں۔
نیز اس عورت کے اس قول :”میں حق کی ادائیگی میں حتی المقدور کو ئی کوتاہی نہیں کرتی ۔“ میں بھی غور کیجئے! نیک بیوی ایسی ہوتی ہے ! وہ اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول ِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اور دارِ آخرت کو اپنا مقصد ِ زندگی بناتی ہے۔
اے میری مسلمان بہن!
آپ کویہ معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کا اپنے خاوند کو راضی اور خوش رکھنے کے لیے جدوجہد کرنا اور اسکے دِل کو سُرورو فرحت سے لبریز کرنا ایک ایسا امر ہے جس کو مرد اپنی شریکِ حیات کی طرف سے دیکھنا چاہتا ہے اور اس کی امید و توقع رکھتا ہے۔ بسااوقات میاں بیوی کے درمیان اختلاف اور نزاع بھی پیدا ہو جاتا ہے، ایسے موقع پر آپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس نزاع کو کسی طرح سمیٹیں اور اس کو ختم کر نے کے لیے انتہائی مختصر راستہ تلاش کریں۔ ایسا ممکن ہے کہ بجائے شوہر کے آپ اس مسئلہ میں حق بجانب ہوں ، لیکن ان حالات میں صرف آپ پر لازم ہے کہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ بسااوقات خاوند کی نظر اس بات پر نہیں جاتی جس پر آپ کی نظر پہنچتی ہے کہ آپ ہی کو اس کی حکمت معلوم ہواور وہ اس کی نظر سے اوجھل ہو، لہٰذا ایسے موقع پر آپ ہی کو سمجھداری سے کا م لینا چاہیے، اور یہ وہ موقع ہے جہاں پر آپ کا رول اورکردار آشکار ہوگا کہ آپ کیا کرتی ہیں؟ اس طرح کے موقع پر آپ کو چاہیے کہ اپنے شوہر کی تکلیف اور پریشانی کو کم کریں اور کوشش کریں کہ معاملہ بجائے سنگین ہونے کے خفیف اور سہل ہوجائے ، آپ دیکھیں گی کہ تھوڑے ہی وقت میں اس کاجی خوش ہو جائے گا اور دِل مطمئن اور پرسکون ہو جائے گا، آپ کو چاہیے کہ اپنی بات کی اس کے سامنے وضاحت کریں ، اس کو باور کرائیں کہ وہ اپنے لیے اور اپنے شوہر کے لیے خیر ہی کی خواہش مند ہے، وہ اس کی شریک حیات ہے، اپنے شوہر سے بے نیاز نہیں ہے۔ ذیل میں ہم ایک نادر اور انوکھا واقعہ نقل کررہے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ دِلوں کے قرار اور سکون کا ذریعہ ثابت ہو اور اصلاحِ حال کا موجب بنے: بسااوقات معمولی بات بھی بڑاا ثر چھوڑتی ہے ۔
مروی ہے کہ عر ب کا ایک امیر تھا، اس کی کنیت ابو حمزہ تھی ، اس نے ایک عورت سے شادی کی ، اس کی خواہش یہ تھی کہ اس کے ہاں لڑکا ہو، لیکن اس کی بیوی نے لڑکی کو جنم دیا، جیسا کہ زمانہٴ جاہلیت میں بعض عرب قبائل کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ لڑکیوں کو کراہت کی نظر سے دیکھتے تھے اور لڑکوں کو پسند کر تے تھے ، حتیٰ کہ بعض لوگ اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنے پر اظہار فخر کرتے تھے اور جس کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی اس کو عاردلاتے تھے کہ اب تم دامادوالے بنو گے، بہرکیف !ابو حمزہ کے ہاں بھی جب لڑکی پیدا ہوئی تو اس پر وہ بہت برافروختہ ہوااور اپنی بیوی کے گھر کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا کسی اور گھر جاکر رہنے لگا، ایک سال کے بعد ابوحمزہ کا گزر اپنی بیوی کے خیمہ کے پاس سے ہوا تو دیکھا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کھیل رہی ہے اور یہ اشعار گنگنارہی ہے:
مالابی حمزة لایا تینا یظل بالبیت الذی یلینا
غضبان الانلدالبنینا لیس لنامن امرناماشینا
وانمانأخذماأعطینا ونحن کالارض لزارعینا
تبت ماقدزرعوہ فینا

”ابو حمزہ کو کیا ہوا کہ وہ ہمارے پاس آتا نہیں، پاس والے گھر میں رہنے لگاہے، ہم سے ناراض ہیں کہ ہم بیٹوں کو نہیں جنتیں، حالانکہ یہ چیز ہمارے اختیار میں تو ہے نہیں، ہم تو بس اس نعمت کو جو ہمیں عطاکی جاتی ہے، لینے والے ہیں، ہم تو زمین کی مانند ہیں، کاشتکار جو کچھ اس میں بیجتا ہے ہم اُسی کو اُگاتی ہیں۔“
ابو حمزہ نے جب اس کی یہ بات سنی تو شفقتِ پدری غالب آگئی اور بیوی کی حُسن معاشرت کا خیال آگیا ، فوراً گھر میں داخل ہوا اور اپنی بیوی اور بیٹی کے سر کو بھوسہ دیا ۔
معلوم ہوا کہ بسااوقات معمولی سی بات بھی اتنا اثر چھوڑتی ہے کہ میاں بیوی کا گھرانہ دوبارہ محبت واتفاق اور خوشیوں اور فرحتوں میں تبدیل ہو جا تا ہے۔
ایسے موقع پر کہ جب نزاع کا خدشہ پیداہو، یہ بات آپ کے اختیار میں ہے کہ آپ اس نزاع سے یوں نکل جائیں کہ شوہر کے دِل میں آپ کی محبت پہلے سے زیادہ ہو جائے، اس لیے کہ یہ کام آپ کر سکتی ہیں کہ آپ اپنے خاوند کے سامنے بشاشت اور تبسم کا اظہار کر یں اور اس کے دِل کو موہ لیں ۔ جب خاوند دیکھے گا کہ آپ اس کی بات کو غور سے سنتی ہواور اس کے حکم کی تعمیل کر تی ہو تو پھر آپ بھی کوئی خواہش اس سے پوری کرواسکوگی۔
آپ ضرور فکر مند ہوں گی کہ آپ کا شوہر آپ کو خوش حال اور شادمان رکھے اور آپ کی زندگی نعمت و سُرور سے بھر پور ہو! لیکن یہ تمنا اور مقصد کیسے حاصل ہو سکتا ہے حالانکہ آپ اس کی توجہ کا مرکز نہیں بنیں اور اس کی نظر میں دل کش نہیں بنیں؟!!
”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ و ہ ہے جو اپنے شوہر کو اپنے دِل میں عظیم المرتبت خیال کرتی ہو اور اپنے آپ کو ایسی حاجت مند سمجھتی ہو جیسے کھانے پینے کی اسے احتیاج ہو تی ہے۔
”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“ وہ ہے جواپنے شوہر کے حق کو پہچانتی ہو، اسے حق شناسی یا حق کی تو ضیح کی ضرورت نہیں ہوتی ۔”نیک بیوی “ وہ ہے جو اس بات کا ادراک رکھتی ہو کہ مرد سے بھی بعض اوقات غلطی ہو جاتی ہے، کیونکہ وہ معصوم تو ہے نہیں، لیکن وہ اپنی ذہانت اور عقل مندی سے اپنے شوہر کو سنبھالنا جانتی ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے جو اس کے گھر میں مو ضوعِ بحث بناہوا ہے؟
”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“ وہ ہے جو مناسب وقت اور مناسب طریقہ کو دیکھ کر اپنے شوہر کی اصلاح کا راستہ ڈھونڈ تی ہے۔ ”نیک بیوی“ وہ ہے جو وسیع الظرف ہو ، اپنے شوہر کی بہت سی منفی باتوں کو درگزر کر دیتی ہو، جب کہ معاملہ سنگین نوعیت کی حد تک نہ پہنچا ہو۔
”نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی“ وہ ہے جو اس کو بخوبی جانتی ہو کہ اس کے شوہر نے اس سے شادی اسی لیے کی ہے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے اسی لیے اختلاف رائے پیداہونے کے باوجود وہ اس بات کو فراموش نہیں کرتی کہ اس کے خاوند نے اس کی ضرورت سمجھتے ہوئے اس سے شادی کی ہے۔ ”نیک بیوی وہ ہے جو ایسے امور کی انجام دہی کی بھر پور کوشش کرتی ہو جن کو اس کا خاوند پسند کرتا ہو، یہاں تک کہ اگر بعض باتیں ایسی ہوں کہ جن کو عورت پسند نہ کرتی ہو لیکن وہ اپنے شوہر سے محبت کے اظہارمیں ان کو بھی بجالاتی ہو۔
” نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ وہ ہے جو ہر نزاع اور تکرار کے موقع پر اپنے پر کنٹرول کرتی ہو اور اپنے آپ سے سوال کر تی ہو کہ آخر اس کے شوہر نے یہ بات کیوں کہی ہے اور یہ کام اس نے کس وجہ سے کیا ہے؟ آخر خود اس سے (عورت سے) ایسا کون سا فعل سرزدہوا ہے جس کے سبب معاملہ یہاں تک پہنچاہے؟ وہ دوسروں کے بتانے سے پہلے ہی اپنے عیوب ڈھونڈتی ہے، اپنی غلطیوں پر پڑے ہوئے پردے اٹھاتی ہے، وہ ایک بارپھر اپنے آپ سے پوچھتی ہے اور دِل میں کہتی ہے کہ ” کیا خاموشی اختیار کر لیناہی بہتر نہیں ہے؟ ایسے موقع پر شوہر کے سامنے منہ نہ کھولناہی زیا دہ بہتر نہیں ہے؟ کیا اس طریقہ سے بات کر نا زیادہ مناسب نہیں ہے؟
ایسی ہوتی ہے ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ایسا رویہ رکھتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر سے کسی صورت میں بھی مستغنی او ربے نیاز نہیں ہے۔
 

No comments:

Post a Comment